جو تھے اپنے، تمہارے ہوئے
دوستوں کے خسارے ہوئے
کاغذوں کےبیوپاری ہیں
کاغذوں کے ہیں مارے ہوئے
ہم کو کب مل سکے آج تک
بے بسی میں پکارے ہوئے
در بدر روشنی مانگتے
تیرگی میں اتارے ہوئے
لوگ ہوتے ہیں جاں سے قریں
خیر! تم کب ہمارے ہوئے
ہجر در ہجر یہ سلسلہ
لامکاں کے کنارے ہوئے
یاد اک آسرا آخری
ہم جو یادوں کو پیارے ہوئے
اب نظر ڈھونڈتی ہے تجھے
عشق مرگھٹ اتارے ہوئے
کھیل کب ہم نے کھیلا ہے یوں
کھیل ہیں سارے ہارے ہوئے
غیر سے ہم کو شکوہ ہے کیا
یار میرے ستارے ہوئے
لوگ تھے شبنمی شبنمی
لوگ کاشفؔ شرارے ہوئے

0
85