ہرسو جیسے کہرا چھائے
آنکھوں میں یوں آنسو آئے
بس تم سے امید بندھی ہے
دیکھیں کیا کیا آگے آئے
دولت کھونے کا دکھ کیسا
جان بچی سو لاکھوں پائے
دنیا اک دن دھوکا دے گی
چاہے کوئی دل میں بسائے
دنیا کا ہر منظر جھوٹا
اک بنجارا گاتا جائے
انکو سمجھنا نا ممکن ہے
چاہے جتنا سوچا جائے
مفلس کی ہر ایک تمنا
دل کے دل میں ہی مرجائے
اچھے سمےکی آشا چھوڑو
آئے آئے یا نہ آئے
بدحالی کا حال نہ پوچھو
بڑھتی جائے بڑھتی جائے
اپنوں پر بھی راز نہ کھولو
گھر کا بھیدی لنکا ڈھائے
اس اندھیارے گھر میں کشفی
انکی یاد ہی دئے جلائے

0
49