یاد کی راکھ میں جلتے ہوئے آثار آئے |
چشمِ نم ناک لے کر دل کے یہ آزار آئے |
چاند نکلا تو گزرتی ہوئی شب یاد آئی |
پھر تری یاد کے جھونکے ہمیں بیدار آئے |
دل نے سوچا تھا کہ کچھ وقت کو تنہا رہ لیں |
پھر ترے در سے پلٹتے ہوئے لاچار آئے |
بات لب پر نہ گئی، آنکھ نے سب کچھ کہا بھی |
ہم تو خاموش تھے، پر لوگ مگر زار آئے |
دھوپ میں چل کے بہت دور تلک ہم پہنچے |
اور سائے بھی وہاں تک ہمیں تب ہار آئے |
آئنہ بن کے بھی ہم چپ رہے ہر چہرے پر |
کتنے چہروں پہ ہے دکھ جیسے کہ تلوار آئے |
اب جو حسرت نے کہا دل کے چھپے راز سبھی |
مسکرا کر وہ گلے ملنے کو تیار آئے |
کلام:- خورشید حسرت |
معلومات