کب سے ہے مرے دل میں اسی بات کا ڈیرا
راتوں پہ جوانی ہے تو کیوں بُوڑھا سویرا
آ جاؤ مرے ساتھ سبھی مل کے صدا دیں
جو میرا ہے اے دوست وہی دکھڑا ہے تیرا
جو شخص تمہیں دیتا ہے ہر روز دلاسے
آدم کے لبادے میں وہ انساں ہے لٹیرا
بدلیں گے شب و روز بہت جلد ہمارے
ظالم کے مقدّر میں ہے گھنگھور اندھیرا
کب گزریں گے دن کون زماں بیتیں گی راتیں
کب تک کریں حالات کی گردش میں بسیرا
ہر رات نئے کانٹے میں پھنس جاتی ہے مچھلی
ہر روز نیا جال لگاتا ہے مچھیرا
ہر شب نئی بانہوں میں تو ہر شام نیا جوڑ
اس پیٹ کی وحشت نے کیا رین بسیرا
اس ظلم و تشدّد پہ اگر چُپ رہے امید
ہر شخص نظر آئے گا بے رحم لٹیرا
بی۳

0
160