جو محفل میں شب جلوه فرما، رہے ہیں
سرِ بام آنے سے کترا رہے ہیں
تمنا سے، ہوتا اگر عشق ہم کو
نہ ہوتے جو اب ہم ہوئے جا رہے ہیں
تھا جس بات سے آپ کا کام نکلا
ہم اُس بات سے ہى تو گھبرا رہے ہیں
ہیں اس قدر عصیاں سے پُر، میرے مولا!
ترے در پے آنے سے شرما رہے ہیں
جہاں میں، تمنّا لیے، ہاتھ خالى
کئى جا رہے ہیں، کئى آ رہے ہیں
شب اَشکوں سے تَر اپنے دامن کو کر کے
غمِ دل لگى کا مزہ پا رہے ہیں
ذرا اِن کو روکو! کہ ہم مَر نہ جائیں
یہ شانے پہ زلفوں کو بِکھرا رہے ہیں
ہمیں تو بس ان کى نِگہ سے ہے مطلب
بھلے، جام اَوروں کو پکڑا رہے ہیں
تھے کَل اپنے پہلو میں، اور آج دیکھو!
کسى اور کى بَزّم گرما رہے ہیں
نہیں جُز، بلال، اس کے کوئی بھی دھندا
بس اُن کى گلى میں ہى آ جا رہے ہیں

93