پوشاک پہن کر بیسن کی، جب پیاز نے سب قربان کِیا
تھے ساتھ میں پالک دھنیا بھی، اور ہم پہ بڑا احسان کِیا
پھر مِرچ نَمَک بھی آگے بڑھے، زِیرا بھی روکے اب نہ رُکے
سوڈا بھی پھُولے سما نہ سکا، چمچے نے سب یک جان کِیا
آواز کڑاہی کی سُن کر، میدان میں آیا سر دُھن کر
اب تیل کا تھا رقصِ بِسمِل، پروانوں کو حیران کِیا
پھر چوم کے اُنگلی کے پورے، سب تیل کی جانب ہی دوڑے
پُر جوش سَماں تھا کڑاہی میں، کیا خوشبو نے فرحان کِیا
قربان سُنہری رنگت پر، چٹنی کی پھبتی سنگت پر
موسم بھی سُہانا ساون کا، لذت کا عجب سامان کِیا
ہے شان پکوڑوں کی تو جُدا، دل جان سے ہے ہر کوئی فِدا
زیرکؔ بھی شیدا اِن پر ہے، کس شان سے یہ اعلان کِیا

0
56