کوئی تجھ کو بھی ہے ڈھونڈتا جوگیا
تو کہاں کھو گیا پاگلا جوگیا
جس کی ہے جستجو وہ تو ہے ہی نہیں
اب یہ ضد چھوڑ دے مان جا جوگیا
زخمِ جاں مشکلوں سے بھرا تھا مرا
تو نے کیوں مجھ کو پھر چھو لیا جوگیا
وہ جو مجھ میں کوئی شخص تھا اس کو میں
عمر بھر یاد کرتا رہا جوگیا
کب تلک خود سے یونہی خفا بیٹھے گا
کوئی ہے منتظر لوٹ آ جوگیا
کون سمجھے گا دل کا فسانہ یہاں
رہنے دے ان کہا ان سنا جوگیا
دیکھ تو گھر میں بھی اب بہار آئی ہے
اپنے اندر سے تو باہر آ جوگیا
آج پھر اس گلی جانے کی ضد نہ کر
حشر ہے برپا کوئے جفا جوگیا
خود سے ہارا ہوا اک مسافر ہے تُو
کیا ہی منزل ہے، کیا راستہ جوگیا
یہ مدینے کے اس کوچے کی خاک ہے
اور مل تن کو خاکِ شفا جوگیا
کل تلک تو تھے وردِ زباں یہ کہو
پھر ہوئے کیاوہ بابِ دعا جوگیا
جو ہوا وہ تو ہونا ہی تھا ایک دن
کب تلک خود کو دے گا سزا جوگیا
دل کے صحرا میں پھر گونجتی ہے صدا
کب کوئی آئے گا ہم نوا جوگیا
کتنی باتیں تھیں جو تجھ پہ لازم تھیں پر
تو نہیں بولا اک لفظ، ہا جوگیا
سب تعلق اگرچہ ہیں لمحے کے بس
پھر یہ کیوں کر ہوئی انتہا جوگیا
یاد کی لَو میں جلتا رہا عمر بھر
کیا یہ لازم تھا مرنا سدا جوگیا
جس مہک کو میں سوچوں میں ڈھونڈا کروں
وہ مہک بن گئی فاصلہ جوگیا
وہ جو پاگل سا شاعر تھا اک شہریار
اس کی ہے کچھ خبر کچھ پتا جوگیا؟

0
113