وقت ساکن ہے سانس جاری ہے
بس ترے بعد یوں گزاری ہے
کسی آہٹ پہ چونکنا کیسا
جب ہے معلوم بے قراری ہے
رات کا روز یہ دلاسہ ہے
آج کی رات صرف بھاری ہے
مار ڈالا ہے ان طبیبوں نے
ہم سے کہتے تھے زخم کاری ہے
ہم جو تیرے بغیر زندہ ہیں
سب دکھاوا ہے دنیا داری ہے
خود سے ٹالا ہے ہر سکوں ہم نے
جب سے تیری نظر اتاری ہے

196