| جب ہوا پیشِ درِ والا نبی |
| کچھ نہ تھا ہمراہ جز شرمندگی |
| اُس گھڑی میرا سہارا بن گئی |
| چشمِ نم دیدہ لبوں کی کپکپی |
| یہ صدا آئی یہاں لائے ہو کیا |
| ناتواں ایمان دل کی بے حسی |
| کیا ترے دل میں کوئی خواہش بھی ہے |
| آگہی بس آگہی بس آگہی |
| کیا کوئی مونس مرا دکھ سکھ میں ہے |
| شکر و ذکر و فکر و فقر و صابری |
| چاہتا ہوں میں مجھے عزت ملے |
| تم ذرا اپنا کے دیکھو عاجزی |
| ہم جدید افکار اپنا لیں تو کیا |
| میری سنّت میں کمی دیکھی کوئی |
| جب کہا میں نے مسلماں کم نہیں |
| صاحبِ ایماں بھی ہے لاؤ کوئی |
| کام کیا آئیں گے میرے روزِ حشر |
| بس فقط اعمال ہی اعمال ہی |
| مختصر سی اک ہدایت چاہیے |
| امرِ بالمعروف عنِ المنکر نہی |
| میں یہاں سے جاؤں تو لے جاؤں کیا |
| میرا دیں ہے روشنی ہی روشنی |
| رات دن بے چین سا رہتا ہے دل |
| دوسروں کے درد میں ڈھونڈو خوشی |
| کیوں جہاں بھر میں پزیرائی نہیں |
| جب بھی تم نے فکر کی اپنی ہی کی |
| یوں تو کہتے ہو کہ ہم ہیں آپ کے |
| میری خاطر کوئی قربانی بھی دی |
| صرف باتیں ہیں کہ دیوانے ہیں ہم |
| میری خاطر بھی کوئی دیوانگی |
| میری سنت کا یہی اعجاز ہے |
| جھکنے والے کو ملی ہے سروری |
| جسم و جان و روح آلودہ نہ ہوں |
| میرا دیں ہے طاہری ہی طاہری |
| کوئی ادنیٰ اور کوئی اعلیٰ نہیں |
| صرف تقویٰ ہے نشانِ برتری |
| چاہتے ہو امتیازِ نیک و بد |
| اور یہ خواہش ملے شاہنشہی |
| صرف دنیا پر نہیں موقوف کچھ |
| چاند تارے بھی کریں گے چاکری |
| جو مرے اصحاب نے اپنائی تھی |
| تم بھی اپنالو وہی شستہ روی |
| چاہتے ہو گر شفاعت روزِ حشر |
| بات چھوٹی ہے مگر ہے جامعی |
| زندگی آمد برائے بندگی |
| زندگی بے بندگی شرمندگی |
معلومات