بیاں کر دے جو اُس سے مدعا وہ
کہاں سے لاؤں ایسا حوصلہ وہ
نہیں تھا آشنا پھر بھی مجھے کیوں
لگا برسوں پرانا آشنا وہ
اِسے کیا نام دوں، جب میں نے دل کا
رکھا جو مدعا تو ہنس دیا وہ
قرینِ شہ رگ و جاں ہے، تو اے دل
دکھائی کیوں نہیں دیتا بتا وہ
اسے بھی مبتلائے عشق پایا
جسے سمجھا تھا ہے اچھا بھلا وہ
تعلق ہی نہ تھا تو پھول سا کیوں
بچھڑ کے آپ سے مرجھا گیا وہ
مری دنیا ہو جاں ہو روح و دل ہو
بھلادوں کیسے سب تیرا کہا وہ
جو گن لے اڑتی چڑیاؤں کے پر بھی
بھلا افسوں میں تیرے آئے گا وہ
اسے مدت ہوئی دنیا سے گزرے
بچھڑ کے تجھ سے کیا جیتا بھلا وہ
مری آبادیِ دل کو نہ جانے
کہاں ویران کر کے جا بسا وہ
میں اس کے پیار کی یادوں کا قیدی
نہ مر جا تا جو کر دیتا رہا وہ
حبیب اب تک انھیں سوچوں میں گم ہوں
مجھے دیکھا تو کیوں شرما گیا وہ

0
46