یہ مانا وہ دیر و حرم تو نہیں تھے
مقدّس عرب یا عجم تو نہیں تھے
مقدّر سے ماں باپ ملتے ہیں سب کو
کہ بس میں ہمارے ، جنم تو نہیں تھے
یقیناً ہے قدموں تلے ماں کے جنّت
پہ والد بھی جنّت سے کم تو نہیں تھے
مرے سر پہ تھے سائباں کی طرح وہ
کڑی دھوپ کے یوں ستم تو نہیں تھے
وہ مایوسیوں میں رہے اک سہارا
کسی اور کے یہ کرم تو نہیں تھے
مرے راستے پر نظر ایسے رکھتے
کہیں میرے بھٹکے قدم تو نہیں تھے
مرے قہقہوں پر نظر ان کی ہوتی
کہیں آنسؤں سے وہ نم تو نہیں تھے
انہیں تو ہمیشہ یہی فکر رہتی
چھُپے میری خوشیوں میں غم تو نہیں تھے
بڑے غور سے میرے خط کو وہ پڑھتے
کہیں ان پہ شکوے رقم تو نہیں تھے
انہیں دیکھ کر پھوٹتیں دل سے خوشیاں
یونہی ہنس کے رکھتے بھرم تو نہیں تھے
وہ ہو جائیں گے ہم سے اک روز رخصت
یوں خدشے بھی لیتے جنم تو نہیں تھے
وہ دن تھے کہ پڑھنے کو ملتا ہمیں سچ
کہ آسان بکتے قلم تو نہیں تھے
وہ اچھے زمانے تھے ، ہاتھوں میں طارقؔ
تھے پیالے ، کہیں جامِ جم تو نہیں تھے

0
15