: زندگی بھی نہیں قرار نہیں
موت سے کوئ فرار نہیں
یہ جبیں حکم ہو پہ جھک جاۓ
اس سے بڑھکر کوئ دیار نہیں
حجر ہی تو وصال ہے مقصد
کیسے کہہ دوں ہمیں تو پیار نہیں
ان لبوں نے ہمیں پکارا ہے
یہ الگ بات ہے شمار نہیں
اب تو اخبار ہو گئ دنیا
اب کوئ اجر بھی ادھار نہیں
اپنے غم بھی‌ہیں حوصلےاپنے
شاہ کا کوئ غم گسار نہیں

74