| : زندگی بھی نہیں قرار نہیں |
| موت سے کوئ فرار نہیں |
| یہ جبیں حکم ہو پہ جھک جاۓ |
| اس سے بڑھکر کوئ دیار نہیں |
| حجر ہی تو وصال ہے مقصد |
| کیسے کہہ دوں ہمیں تو پیار نہیں |
| ان لبوں نے ہمیں پکارا ہے |
| یہ الگ بات ہے شمار نہیں |
| اب تو اخبار ہو گئ دنیا |
| اب کوئ اجر بھی ادھار نہیں |
| اپنے غم بھیہیں حوصلےاپنے |
| شاہ کا کوئ غم گسار نہیں |
معلومات