اپنی میں دوکان یوں چلاتا ہوں
کانٹے چُن کے پھول بیچے جاتا ہوں
پھول سستے دام بیچے جاتے ہیں
اور خوشبو، جام بیچے جاتے ہیں
حرفِ عزت، اپنا پن، ہمدردی بھی
سب کے سب یاں بولی لگ کے بِکتے ہیں
جس کی جتنی بھاری دولت دِکھتی ہے
اُتنی الفت سے ہی اُس کو ملتے ہیں
میں محبت کا بھی تاجر ہوں مگر
عشق کو شلفوں میں، پیچھے رکھتا ہوں
پیسے والوں کو ہو عزت دینی جب
اِس کو میں پیروں میں کچلے دیتا ہوں
اس کی وقعت مجھ کو تب تک لگتی ہے
اس کی قیمت مجھ کو جب تک ملتی ہے
یہ دکاں میں آگے تب ہی آئے گا
اپنی قیمت جب بڑھا یہ پائے گا
خیر، سارے پھول بِک تو جاتے ہیں
خود میں خالی ہاتھ سا رہ جاتا ہوں
خام، خالی ہاتھ، خالی کمرہ، گھر
گِر بھی جائیں ، غم کیا، گُل بیچو تم

0
80