پکارتا ہے خون تازہ پھولوں کا
پڑھا ہے گلوں نے جنازہ پھولوں کا
رلا کے جو ہوئے ہیں گم فضاؤں میں
بنے ہوئے ہیں وہ سراپا پھولوں کا
بدن ہے چھلنی سارا ان کا گولی سے
مگر کھلا ہوا ہے چہرا پھولوں کا
ختم ہوا ہے کھیل سب اندھیروں کا
ملا ہے سحر کو اجالا پھولوں کا
خزاں نہ آئے گلستاں پہ ان کے پھر
بہار ہے کوئی تقاضا پھولوں کا
عزیز ہیں زمیں کی حرمتیں انہیں
پسند ان کو ہے یہ رستہ پھولوں کا
ماں بھی جلا کے بیٹھی ہے چراغوں کو
وطن اس کو بھی ہے پیارا پھولوں کا

0
63