وہ راتیں کیا ہوئیں مہتاب کیا ہوئے
شبِ فراق کے وہ باب کیا ہوئے
مجھے بتا اے دلِ بے قرار تو
وہ نیند کیا ہوئی وہ خواب کیا ہوئے
یہ دشت تو ابھی بھی دشت ہیں مگر
جو باغ تھے کبھی شاداب کیا ہوئے
یہ دل چمن تو تھا برباد پہلے ہی
وہ یادوں کے گھنے غاب کیا ہوئے
چمکتے تھے جو سرِ آسمان وہ
ابھرتے عکس سرِ آب کیا ہوئے
کسے خبر کہ وہ افسانہ کیا ہوا
وہ کشتی کیا ہوئی گرداب کیا ہوئے

0
36