آیا تھا پھر سے خواب دکھا کر چلا گیا
مَیں نیند میں تھا مجھ کو جگا کر چلا گیا
کن حسرتوں سے مَیں نے بنایا تھا جھونپڑا
کتنا بے داد گر تھا گرا کر چلا گیا
دنیا ترے فریب کا پردہ ہؤا ہے چاک
اس وقت جب تُو بجلی گرا کر چلا گیا
آجاؤ میرے لاڈلو سب مِل کے روئیں آج
سارا اناج بنیا اُٹھا کر چلا گیا
ماؤف کر دیا مرے ماضی نے یوں مجھے
ہر نقشِ ماسوا کو مٹا کر چلا گیا
اک ساتھ جس نے رہنے کی قسمیں اٹھائی تھیں
آیا تھا خامشی سے دبا کر چلا گیا
ضربِ کلیم بانگِ درا وہ نقاب ہیں
اقبال جن سے پردے اُٹھا کر چلا گیا
اے روشنی کے شہرو کبھی تو جواب دو
وہ کون تھا جو شمعیں بجھا کر چلا گیا
امید عہدِ رفتہ پہ ماتم سے کیا ملا
گر بُت نہیں ملا تو خدا بھی نہیں ملا

0
115