اداس سب ہمیں سرو و سمن نظر آئے
خزاں میں پیڑ برہنہ بدن نظر آئے
کسی کی یاد میں کھوئے تو پھر کہیں ہم کو
نہ رنگ و بُو سے شناسا چمن نظر آئے
کنول سفید جو دیکھے تھے جھیل میں ہم نے
ہمیں وہ پہنے ہوئے کیوں کفن نظر آئے
ہماری آنکھوں میں جب آنسوؤں کا ڈیرہ ہو
تو پھر چناب نہ گنگ و جمن نظر آئے
ہوا جو تلخ حقائق کا سامنا ہم کو
تو خواب جیسے نشہ ہو ہرن نظر آئے
مزاج بدلا چمن کا بھی گر تو کیا ہو گا
ہمیں بدلتا ہوا جب گگن نظر آئے
حسد سے دیکھ نہ پائے کوئی کسی کو خوش
ہر ایک بات میں ہم کو جلن نظر آئے
تلاش کر کے جو دیکھا تو کم ملا کوئی
ملن کی آرزو میں جو مگن نظر آئے
نگاہ ڈالتے ہیں شک کی ہر کسی پر لوگ
ہمیں تو کم ہی یہاں حُسنِ ظن نظر آئے
یقین ہی نہیں رکھتا جو وصل کا طارق
تو اس کا ہوتا ہوا کب مِلن نظر آئے

0
38