مجنوں فرہاد سارے مارے گئے |
عشق کے وہ زمانے پیارے گئے |
خواب خوابوں طرح سنوارے گئے |
پھر بڑی بے دلي سے مارے گئے |
بے سبب جس میں ہم ہی مارے گئے |
جرم آخر وہ سر ہمارے گئے |
ایک دیوار تھی گماں کی جو |
گر گئی تو یقین مارے گئے |
اِک عجب شور تھا ہواؤں میں |
لفظ بس بے صدا پکارے گئے |
خواب آنکھوں کے خالی کاسے تھے |
زندگی کے یہ دن گزارے گئے |
عشق محرومِ اعتبار رہا |
اور دعوے یقین ہارے گئے |
وقت اپنا لہو بہاتا رہا |
ہم فقط ایک قصہ وارے گئے |
کیا حقیقت تھی کون جانتا ہے |
ہم تو بس خواب سے گزارے گئے |
تھی تمنا بہاروں کی ہم کو |
ہم خزاؤں کے بیچ مارے گئے |
ہمیں اس کے اشارے جانا تھا |
ہم کسی اور کے اشارے گئے |
سوچ اپنی تھی، خواب اپنے تھے |
پھر یہ کس کے گماں کے مارے گئے |
یہ جو خاکِ وطن تھی ہم سب کی |
اسی مٹی پہ خوں کے دھارے گئے |
اس چمن میں چلی پھر ایسی ہوا |
پھول کانٹوں کے ساتھ وارے گئے |
تم گئے دل سے رفتہ رفتہ پھر |
خواب، خواہش، ملال، سارے گئے |
دل کی بستی میں رات ڈھلتی رہی |
اور ہم خواب میں سنوارے گئے |
زندگی بھی عجب سا دھوکہ تھا |
ہم اسی دھوکے پر پکارے گئے |
ایک خوابِ گریز تھا دنیا |
ہم اسی خواب میں سدھارے گئے |
زندگی ہم پہ ہنس رہی ہوگی |
ہم بھی کس خواب کے سہارے گئے |
آخرش ایک دن سمجھ آیا |
ہم بھی قصے کے ایک چارے گئے |
معلومات