اپنے ہونے کی سزا کاٹ رہا تھا کب سے
بڑھ گیا درد ہوئی مجھ کو محبت جب سے
میرے اندر سے کوئی سُر نہیں نکلا اب تک
کرچیاں چپکی ہوئی کیوں ہیں نجانے لب سے
ان اجالوں سے کبھی غم کے سوا کچھ نہ ملا
تلخیاں بڑھنے لگی ہیں ابھی میری شب سے
تم نے دنیا سے کنارے کی وجہ پوچھی ہے
کیا کہوں مجھ کو شکایت ہے یہاں پر سب سے
اب تو غلطی کی سزا کاٹ رہا ہوں شاہدؔ
ٹوٹتے تارے پہ مانگا تھا اسے اپنے رب سے

56