حقیقت کو تم....... کہہ رہے جو تماشا
تماشا حقیقت میں ......تم کر رہے ہو
محبت ہے تم سے....... کہا تھا یہی نا
تو کیوں تم مرا ....سر قلم کر رہے ہو
بٹھا کے رقیبوں کو ...اپنی بغل میں
خدایا یہ کیسا .........ستم کر رہے ہو
بدل کے نگاہیں......... بھلا کے قسم کو
وفا کو بے پردہ .......صنم کر رہے ہو
ملا کے نگائیں,............. تبسّم چھپا کر
لبوں پر یوں کیوں تم.. ستم کر رہے ہو
یقینن چھری............. آج چلنی گلے پہ
یونہی تو نہیں تم....... کرم کر رہے ہو
لگا کے یہ مہندی مرے...... تم لہو سے
حوالے عدو کے ........صنم کر رہے ہو
یہ تم کر کے دعویٰ کہ تم بھی خدا ہو
مرے ہی خدا کی........ قسم کر رہے ہو
سکوں چھین کر سب تُو سالک ہمارا
حوالے ہمارے................... الم کر رہے ہو

17