خط نہیں نام مرے آپ کی رسوائی ہے |
کوئی گل رنگ ہوا شہر پہ لہرائی ہے |
گر پڑا اس سے کوئی خواب کا ایوانِ گہر |
آنکھ یوں ہی تو نہیں اشک سے بھر آئی ہے |
دیکھ کر مجھ کو ہنسے جاتی ہے رفتہ رفتہ |
میں تماشا ہوں تو یہ دنیا تماشائی ہے |
پھر سے ٹوٹا ہے مرے گھر میں ستاروں کا ہجوم |
پھر سے ملنے کی خبر بادِ صبا لائی ہے |
چاہنے پر بھی اتاری نہیں جائے گی کبھی |
جو قبا مجھ کو ترے ہجر نے پہنائی ہے |
جاگنے پر بھی یہ کھٹکا سا لگا رہتا ہے |
نیند آئی ہے کہ یا موت کی انگڑائی ہے |
چاہتا ہے جو کرے دل کا مرے خود ہی علاج |
کیا کبھی اس نے کوئی خاکِ شفا پائی ہے |
شہر میں دھوپ ہے ایسی کہ جھلستا ہے بدن |
خوش ہوں اس بات سے گاؤں میں بہار آئی ہے |
کس طرح اس سے وفاؤں کی امیدیں رکھئے |
دوست بن کر بھی جو ہر آنکھ میں ہرجائی ہے |
معلومات