یوں تو مٹی ہوں کسی رنگ میں ڈھل جاؤں گا |
تیز گر دھوپ لگے گی تو میں جل جاؤں گا |
آندھیاں مجھ کو سفر کرنے سے کیا روکیں گی |
لڑکھڑاؤں گا کہیں گر تو سنبھل جاؤں گا |
وہ تو کہتا تھا ملاقات اگر ہو اُس سے |
برف پر چل کے بھی میں گھٹنوں کے بل جاؤں گا |
کوئی رسماً بھی بُلائے تو چلا جاتا ہوں |
وہ بلائے تو کہے کون کہ کل جاؤں گا |
کھوٹا سکّہ ہوں اگرچہ یہ خبر رکھتا ہوں |
اس کے ہاتھوں میں جو آؤں گا تو چل جاؤں گا |
طارق ؔ اس دولتِ دنیا کا بھروسہ کیا ہے |
کیا مگر اس کی محبّت سے میں ٹل جاؤں گا |
معلومات