کہاں ملتے جو کھو جاتے ، تھا عالم نیم خوابی کا |
نہ ہوتا اذن جب تک آسماں سے بازیابی کا |
ہوا شیطان غالب جب ، ذرا سے امتحاں میں بھی |
تو کس بِرتے پہ رکھتے ہم ، گماں پھر کامیابی کا |
نئی تہذیب سے شکوہ نہیں کوئی ہمیں گرچہ |
ہوئی ہے ، ان دنوں باعث یہ رشتوں کی خرابی کا |
اثر انگیز ہوں اتنی مصنّف کی جو تحریریں |
بھلا بھولیں گے کیسے ذکر اُس روئے کتابی کا |
دکھایا راستہ اس نے خدا کے وصل کا جو ہے |
سمجھ جاؤ سبب کیا ہے مرے دل کی شتابی کا |
اسے حق بات کہنے میں تردّد جب نہ تھا کوئی |
تو شکوہ پھر ہوا لوگوں کو اس سے، بے حجابی کا |
اسی کے میکدے سے زندگی بھر پیتے رہنا ہے |
اتر جاتا ہے جلدی کچھ نشہ عادی شرابی کا |
رہیں گے منتظر طارق ، بڑے صبر و رضا سے ہم |
ہمیں بھی حکم ہو گا ایک دن تو باریابی کا |
معلومات