اے بطحا حسیں سماں ہے تیری بہار کا
ملا حسن دو جہاں کو جس کے نگار کا
لگیں گل حسیں اسی کے ہر عندلیبِ کو
ملے لطف خوب جن کو بطحا کے خار کا
کبھی جلوے اس حسن کے اس دل میں آ بسیں
کریں پھر جگر خنک یہ اس جاں نثار کا
کہیں رائگاں نہ جائے میری یہ خاک بھی
اے قادر کریں یہ حصہ بطحا غبار کا
یہ جائے ہوا کے سنگ بطحا کو خاک گر
بنے ایک ذرہ یہ بھی ان کے دیار کا
ملے آنکھ کو بھی سرمہ خاکِ مدینہ سے
سدا دیکھے یہ بھی جلوہ ان کے مزار کا
ہے منزل جنابِ عیسیٰ محمود آسماں
بتا عرش ہے ٹھکانہ کس تاجدار کا

37