اے نازشِ محبت ! خوش شکل خوبرو
جس کے نگاہ و دل کے چرچے ہیں چارسو
مجنوں تری حقیقت بن جاۓ نہ فسانہ
پھرتا ہے جابجا کیوں رہتا ہے جو بجو
کہتا ہے اک خردمند اے سرفروشِ دیں
بزدل صفت جواں ہی ہوتے ہیں صلحجو
ترتیبِ ساز و ساماں ہو نظم و بندوبست
ہے ناگزیر جب کہ باطل سے دوبدو
وہ کیوں نہ مے کدے کی تعمیرِ نو کرے
ہونا ہے جس کو اک دن ساقی کے روبرو
ملت کے جانثاروں کو ڈھونڈھتا ہوں میں
بیتاب کررہی ہے مجھ کو یہ جستجو
یہ فکر کر رہی ہے آتش بجاں مجھے
کیسے بچاؤں دینِ محمؐد کی آبرو
ناکام ہوں اگرچہ مایوس تو نہیں
ہر لمحہ ہر گھڑی ہوں میں محوِ جستجو
وہ شمع پھر جلا دے محفل میں ساقیا
پروانے مضطرب ہیں پھر گردِ آرزو
صدقے میں اُن کے یارب ! اِن کو تو جاوداں کر
واجب ہے نام لینا جن کا کہ باوضو
مردہ دلوں کو روحِ حیوانی بخش دے
موجِ نفس بھی یکسر ہوجائے سرخرو
تازہ دلوں میں پیدا فکرِ کہن کرے
شاید کہ شاہؔی تیرا اندازِ گفتگو

46