پھر کوئی جستجو نہیں ہوتی
تم سے جو گفتگو نہیں ہوتی
نقش جتنا بھی تجھ سے ملتا ہو
تو کبھی ہو بہو نہیں ہوتی
رنگ کوئی نہیں رہا مجھ میں
اب کوئی آرزو نہیں ہوتی
شکل کوئی بھی ہو سوا تیرے
وہ کبھی خوبرو نہیں ہوتی
زندگی مجھ کو اب نہ جینا ہے
اب مرے پاس تو نہیں ہوتی
کوئی کاوش تجھے بھلانے کی
وہ مگر سرخرو نہیں ہوتی
یہ نہ سمجھا سکا ہوں تجھ کو میں
بن وفا آبرو نہیں ہوتی
یہ محبت تو اک سمندر ہے
یہ کوئی آبجو نہیں ہوتی
تو ہمایوں بدل گیا ہے کیوں
وہ ترے چارسو نہیں ہوتی
ہمایوں

0
15