اشک سے رنگ بھی پیدا کر دے
آہ سے پار بھی بیڑا کر دے
جس کو چاہے اُسے عزت دے تُو
جس کو چاہے اُسے رسوا کر دے
ابر مایوسی کے چھٹ جائیں سب
کفر کا دور یہ سایہ کر دے
ہر فرامین پہ مٹتا جاؤں
مردِ مومن تُو سراپا کر دے
پاس سنت کا عطا کر مالک
عشقِ آقؐا میں جیالا کر دے
دین پر مٹنے کے ہوں جزبے بھی
رحمتِ خاص سے شیدا کر دے
التجا اتنی ہے ناصؔر کی بس
فضل کا تیرے سہارا کر دے

0
42