ظلم کر کے بھی بے گنہ نکلے
تجھ کو سارے ستم روا نکلے
زخم دنیا ہو یا غمِ جاناں
درد جتنے تھے لادوا نکلے
خوں میں شامل ہے یوں وفا کا اثر
دم ہی نکلے تو پھر وفا نکلے
خوف رہتا بھلا کہاں اس کو
جس کے سینے سے جب خدا نکلے
لوگ کہتے شفیق تھے جس کو
لے کے اس سے بھی ہم سزا نکلے
جو کیا اس نے وہ ثواب ہوا
کرنے میرے سبھی گنہ نکلے
اب گلہ کس کا میں کروں جبکہ
فرد گھر کے ہی بیوفا نکلے
جو کی کوشش رفو اسے کر دوں
زخم سینے پہ جا بجا نکلے
میری جو نیکیاں عروج میں تھیں
وقت پلٹا تو سب گنہ نکلے
بے وفا سے پڑا سدا پالا
جب بھی کرنے کو ہم وفا نکلے
میں بھی لایا ہوں حشر میں دل کو
ساتھ لے کے وہ بھی گواہ نکلے
حال ایسا کیا کہ جو دیکھے
اس کے لب سے خدا خدا نکلے
عشق نے لادوا کیا جس کو
ڈھونڈنے اس کی وہ دوا نکلے
روک لو تم ستم یہی بہتر
اس سے پہلے کہ بد دعا نکلے
میری قسمت کی بات ہے لوگو
دوست جتنے تھے بے وفا نکلے
اپنے ہاتھوں جنہیں تراشا تھا
جتنے بت تھے سبھی خدا نکلے

0
27