پہلے تو زمیں پر مجھے لانا ہی نہیں تھا |
لائے تھے پھر انسان بنانا ہی نہیں تھا |
جو بھی ملے مجھ کو وہ دلِ سنگ تھے سارے |
میرے دلِ نازک کا ٹھکانا ہی نہیں تھا |
سب خواب میں ڈوبے تھے جھنجھوڑا انہیں میں نے |
ناراض ہیں مجھ سے کہ جگانا ہی نہیں تھا |
خود اپنے ہی کاندھے پہ بہاتے رہے آنسو |
رونے کے لیے یاں کوئی شانا ہی نہیں تھا |
اپنے بھی ہنسے مجھ پہ ہنسے مجھ پہ پرائے |
سینے کا مجھے زخم دکھانا ہی نہیں تھا |
کیوں وقت سے پہلے مجھے بھیجا تھا زمیں پر |
پاگل نہیں میرا یہ زمانہ ہی نہیں تھا |
معلومات