محبت جس کو ملتی ہے فقط چند ایک ہوتے ہیں
محبت جس کو کرنی ہے ہزاروں ہیں زمانے میں
میں اس کے ہاتھ چوموں گا گلے سے پھر لگاؤں گا
بہت محنت لگی اس کو فقط مجھ کو گرانے میں
یہاں سارے تو مطلب کے ہی استحضار ہیں لوگو
لگائی آگ جس نے تھی لگا ہے اب بجھانے میں
سکھائے کون اس کو اب محبت کی سمجھداری
بڑی وہ دیر کرتا ہے مجھے پاگل بنانے میں
ہزاروں لوگ آتے ہیں مری یہ لاش تکنے کو
بھلا اب کون آیا ہے ترے ظالم نشانے میں
کبھی تیرا کوئی پوچھے میں ان کو پھر بتاتا ہوں
زرا مصروف سا ہے اب نئے وہ گل کھلانے میں
مری میت سے لپٹے کیوں وہی بے دل حسینہ سی
بہت ہی دیر کر دی اس نے کیوں مجھ کو منانے میں
وہاں بیٹھا ہے عزرائیل اس سے یہ تو پوچھو ناں
بہت ہی دیر کر دی مہرباں تم نے تو آنے میں
مگر دنیا کی الفت میں عطا اتنے بہکتے ہیں
یہاں ہر تیسرا بندہ لگا ہے دل لگانے میں

0
62