حسن و ادا پہ کون جو جان چھڑکتے بھی نہیں
عشق و وفا میں کون جو زخموں کو سہتے بھی نہیں
درد اسے ہی مل گئے، جو چلے تھے خلوص سے
جن کے مزے رہے وہ تو، واسطے رکھتے بھی نہیں
پا چکے کچھ طریقہ دنیا کے رواج برسوں سے
مشق و سعی مٹانے کی سوچ میں بھرتے بھی نہیں
چھا چکی ہے ہوس پرستی کی فضا چہار سو
گر کوئی جو صدا اٹھائے بے جا، سنتے بھی نہیں
ٹکڑے بکھر یہاں وہاں ہو گئے کیسے منتشر
پود و شجر دبے پڑے، حال کو پاتے بھی نہیں
فکر مگر مری پڑی، بے حسی بھی وہی رہی
چال چلن بھی ویسی ہی اور بدلتے بھی نہیں
کوچ نصیر ایک دن فانی دہر سے کرنا ہے
اخروی زندگی کی پر محنتیں لیتے بھی نہیں

0
68