| طاری ہیں مجھ پر چاہتوں کے حصار |
| اور ان کی قید میں، میں جیتا جا رہا ہوں |
| ان پر نہ کوئی آنچ آئے دیکھیں نہ کوئی غم |
| درد کے میٹھے گھونٹ تو میں پیتا جا رہا ہوں |
| سایا میسر ہے نا مجھے کڑی دھوپ کا |
| راہیں نہ سمٹیں بس میں چلتا جا رہا ہوں |
| صحرا نہیں نہ دشت سا ہے سماں پھر بھی |
| احباب کے دئیے جام میں گراتا جا رہا ہوں |
| منزلوں سے میری بنی نہیں ہیں لاپتا مقام |
| فاصلے درمیاں تبھی میں بنتا جا رہا ہوں |
| میں اک گلشن میں کھلا اور پروان چڑھ گیا |
| کتنے ہی گلدانوں میں،میں سجتا جا رہا ہوں |
| کاندھوں پر رکھ دئیے تھے اجداد کے فرائض |
| اس دن سے آج تک میں نبھاتا جا رہا ہوں |
| ٹالی ہی نہیں جاتی ضد ہو یا فرمائشیں |
| بھلا کے وسعت اپنی میں پوری کرتا جا رہا ہوں |
| آئے گا کوئی موڑ بھی کیا جانے کب پڑاؤ ہو |
| قافلہ بس اسی آس پر میں بڑھاتا جا رہا ہوں |
| بانہوں میں لینے آئیگی مجھے میری دلربا |
| دعوتیں جلووں کی میں بس ٹھکراتا جا رہا ہوں |
| My words |
معلومات