دردِ دل سوزِ جاں اب لئے پھر رہے ہیں
زخم کھا کے بھی پھر ہم جئے جا رہے ہیں
با دہ کش میکدہ سے ہا ں بیز ا ر ہو کر
دشمنِ جان و دل خود بنے جا رہے ہیں
شکوہ لب پہ نہیں اب ہمارے ذرا بھی
بس محبت کی خا طر لُٹے جا رہے ہیں
مرضِ مہلک ہے یہ عا شقی جان کر بھی
عشق کے روگ میں پھر لگے جا رہے ہیں
کر چکے عشق جو بھی ! ! ! خدا جانتا ہے
کیسےگھُٹ گُھٹ کےوہ مَرےجارہےہیں
مسکرا ہٹ ہے ان کی فقط اک بناوٹ
جو بچھڑکےبھی سب سےملے جارہےہیں
کیا بتا ؤ ں ہے کیا راز اس عاشقی کا
سب دو پل کی خوشی پہ مَرےجارہےہیں
سُن لو گلزار سے عا شقی کی کہا نی
جرأ توں سے حقیقت لکھے جارہے ہیں
ازقلم : محمد گلزار (ولی)

0
1
57
گلزار صاحب بس ایک آخری بار لکھ رہا ہوں - امید ہے آپ معاف کر دیں گے -

رباعی پر زرا معلومات کر لیں کہ یہ ہوتی کیا چیز ہے پھر آپ اپنے ہر کلام کو رباعی نہ کہیں گے -

شاعری کرنے سے پہلے یہ سیکھ لیں کہ نظم یا غزل کے تقاضے کیا ہیں - بغیر قافیئے کے غزل نہیں ہوتی
پابند نظم کسے کہتے ہیں اور اس کے لوازمات کیا ہیں یہ دیکھ لیں -

وزن کسے کہتے ہیں یہ بھی سمجھ لیں - بے وزن کلام شاعری نہیں ہوتا -

ان سب باتوں کے بعد زبان و بیان پہ آئیے گا - تب ہی آپ جو لکھیں گے وہ شاعری ہوگا -

اور آخر میں مخلصانہ مشورہ ہے کہ یہ سب آپ اس سائٹ کی شاعری کو دیکھ کر نہیں سمجھیے گا کیونکہ یہاں کے زیادہ تر شاعر اسی سائٹ کئ برکت سے صرف وزن میں کہتے ہیں ورنہ جو وہ کہتے ہیں عموماً اس کا شاعری سے کوئی تعلق نہیں ہوتا -


0