عروج دیکھ کے سارے زوال بھول گئے
چلے تھے ہنس کی جو، اپنی چال بھول گئے
اندھیری رات میں روشن کیا تھا جس نے سفر
ہم ایک جگنو کا کسبِ کمال بھول گئے
وہ لوگ بھی تھے، جو رشتوں کو جوڑ دیتے تھے
ہم اپنے عہد کی روشن مثال بھول گئے
کھڑی ہے آج کیوں دیوار بھائیوں کے بیچ
ملن کی راہ کا رکھنا خیال بھول گئے
کچھ آپ کے بھی وہ تیور عجیب تھے طالب
ملا جواب تو اپنا سوال بھول گئے

0
13