تمہارے لب کو جو میں نے چوما بہت حسیں تازگی ملی ہے
تمہارا لہجہ بتا رہا ہے تمہیں بھی مجھ سے خوشی ملی ہے
تمہارے گیسوں مہک رہے تھے تمہارا چہرہ دمک رہا تھا
تمہیں گلے سے لگایا میں نے تو چاند کی چاندنی ملی ہے
تمہاری آنکھوں میں کیانشہ تھا جو آنکھ دیکھی تو کھو گیا تھا
تمہاری مژگاں تھی جام جیسی سراپا تو میکشی ملی ہے
تمہارے ہاتھوں میں ہاتھ دے کر جو چل رہا تھا میں ساتھ لیکر
ہوئی مری دسترس میں دنیا جو تو ملی زندگی ملی ہے
ہوئی ملاقات جس جگہ پر میں روز جاتا ہوں اب وہیں پر
وہیں سے بوئے وفا ملی ہے وہیں سے خوشبو تری ملی ہے
ہے جس کا بازو بھی تتلیوں سا وجود جس کا گلاب جیسا
بدن بھی جس کا ہے سنگِ مرمر مجھے وہ کتنی بھلی ملی ہے
وہ دردِ دل بھی سکونِ دل بھی وہ زخم بھی ہے وہی ہے مرہم
وہ اک حقیقت ہے خواب بھی ہے جو ایک لڑکی ابھی ملی ہے
وہ آپ کہہ کر پکارتی تھی میں آپ کہہ کر پکارتا تھا
ادب نہ کیونکر میں اس کا کرتا مجھے ملی جو پری ملی ہے
کچھ ایسا دل پر اثر ہوا ہے ابھی یہ خالدؔ اچھل رہا ہے
میں ایک شاعر ہوں عاشقی کا مجھے مری شاعری ملی ہے

0
5