نالہ ہے حزیں من سے کچھ آنسو بہانے دو
سینے سے صدائے دل اس جگ کو سنانے وو
گر آئے اجل میری اس شہر کے رستے میں
جو خاک اڑے میری وہ طیبہ جانے دو
جانا ہے مجھے بطحا سرکار کے کوچے میں
کچھ روز جو جینا ہے اس شہر میں آنے دو
ہے تازہ سدا ہمدم یہ یاد مدینے کی
اک عکس بنے دل پر آنکھوں کو دکھانے دو
نوری ہے بڑا منظر اس مسجدِ دلبر کا
روکے نہ کوئی مجھ کو اس صحن میں آنے دو
وہ روضہ نظر آیا ہے پلکوں کے بل چلنا
کیا خوب یہ جالی ہے آنکھوں سے لگانے دو
محمود خوشی میری نظارہ یہ منظر کا
دلدار کے روضہ پر اب نظریں ٹکانے دو

0
4