نکل کہ داستاں سے یہ کہاں پہنچے ہیں؟
نگر کی خاک تھے، اب دشت میں ٹھہرتے ہیں۔
غموں کے سائے اتنے تو گہرے بھی نہیں تھے،
فقط یہ دل خاطر، دیکھے اتنے فتنے ہیں۔
وہ ایک رات گزر بھی گئی مگر اب تک،
ہوائے دہر سے دل کے چراغ بجھتے ہیں۔
دیے کی کرنیں ہوں یا لہو اندھیرے کا،
قرار کی خواہش میں بکھرتے رہتے ہیں۔
ہے انتظار کی لذت، ہے آرزو کی تھکن،
ہمارے اشک تری عاقبت سنوارتے ہیں۔
خزاں ہم اپنی فصل آرزو کو کہتے رہے،
سرابوں سے ہم سفر کی داستاں لیتے ہیں۔

0
48