نکل کہ داستاں سے یہ کہاں پہنچے ہیں؟ |
نگر کی خاک تھے، اب دشت میں ٹھہرتے ہیں۔ |
غموں کے سائے اتنے تو گہرے بھی نہیں تھے، |
فقط یہ دل خاطر، دیکھے اتنے فتنے ہیں۔ |
وہ ایک رات گزر بھی گئی مگر اب تک، |
ہوائے دہر سے دل کے چراغ بجھتے ہیں۔ |
دیے کی کرنیں ہوں یا لہو اندھیرے کا، |
قرار کی خواہش میں بکھرتے رہتے ہیں۔ |
ہے انتظار کی لذت، ہے آرزو کی تھکن، |
ہمارے اشک تری عاقبت سنوارتے ہیں۔ |
خزاں ہم اپنی فصل آرزو کو کہتے رہے، |
سرابوں سے ہم سفر کی داستاں لیتے ہیں۔ |
معلومات