یہ زخمِ دل نہیں بھرتے کبھی بتانے سے |
چھپا چھپا کے رکھو رازِ دل زمانے سے |
کروں گا ذکر نہ تیرا کبھی زمانے سے |
کہوں گا زخم ملے مجھ کو اک فلانے سے |
چھپانا آہی گیا ہم کو دردِ دل آخر |
کہ لب پہ آتی ہے مسکان دکھ سنانے سے |
تم اشک آنکھ سے اپنے نہ گرنے دینا کبھی |
کبھی ہوا ہے اثر خود کو یوں رلانے سے |
بدل کے یار بھی تیرا کہاں بدلتا ہے |
”فریب“ فطرتِ یاراں ہے اک زمانے سے |
غزل کہوں تو قلم سے لہو ٹپکتا ہے |
جنازہ دل کا نکلتا ہے غم چھپانے سے |
کھلونے مٹی کے تھے، چاند میں تھی اک بڑھیا |
گزر گئے ہیں وہ بچپن کے دن سہانے سے |
سبھی کے اپنے مسائل بھی ہوتے ہیں احسنؔ |
گریز کیجیے یاروں کو آزمانے سے |
معلومات