طغیانیِ شباب ہے میری نگاہ میں |
ہر لطف بے حساب ہے میری نگاہ میں |
خاطر نشین کیا ہو رخِ داغدارِ ماہ |
رخسارِ آفتاب ہے میری نگاہ میں |
زم زم سے اور حرم سے غرض ہو تو شیخ کو |
میکش ہوں میں، شراب ہے میری نگاہ میں |
وہ اور کوئی آنکھ تھی چندھیا گئی تھی جو |
جلوے کی تیرے تاب ہے میری نگاہ میں |
تیری نگاہِ مست اٹھاتی ہے اک سوال |
سو سو طرح جواب ہے میری نگاہ میں |
مدّت ہوئی کہ کاٹ رہا ہوں شبِ فراق |
روزِ وصال خواب ہے میری نگاہ میں |
تنہاؔ ہوں اور کہتا ہوں تنہا نہیں ہوں میں |
حالت مری خراب ہے میری نگاہ میں |
معلومات