غزل نمبر 28
کوئی امید بر نہیں آتی
بجلی کیوں رات بھر نہیں آتی
بند ہے تیری ناک کھلوا لے
بُو بھی تجھ کو اگر نہیں آتی
ہیں یہاں آنٹیاں سب کی سب
کوئی لڑکی نظر نہیں آتی
پہلے تو آتی تھی ہنسی پہ ہنسی
اب کسی بات پر نہیں آتی
روز بیگم سے مار کھاتے ہو
شرم تم کو مگر نہیں آتی
جیل میں ہم ہیں اس لیے تم کو
کچھ ہماری خبر نہیں آتی
سامنے ابا ہیں سحر چپ ہوں
ورنہ کیا بات کر نہیں آتی
شاعر زاہد الرحمن سحر

0
54