| تھمتا نہیں دل وقت بھی جنبش نہیں کرتا |
| بجھتے نہیں تارے ، میں سفارش نہیں کرتا |
| دیتا نہیں میں ترک تعلق کی وجہ بھی |
| رہتا ہوں میں خاموش ، گزارش نہیں کرتا |
| کہتے ہیں مجھے غیر میں سنتا نہیں جن کی |
| اجڑے کوئی اور اسکی میں خواہش نہیں کرتا |
| لو آج مٹاتے ہیں عداوت کا سبب ہم |
| میں یوں بھی رقیبوں کی ستائش نہیں کرتا |
| شیشے کی ہیں آنکھیں یہ پتھر کے ہیں چہرے |
| اس شہر میں غم کی کوئی بارش نہیں کرتا |
| الفت کا ہنر بھی نہیں آتا مجھے شاہد |
| کرنا جو نہیں آتا نمائش نہیں کرتا |
معلومات