تھمتا نہیں دل وقت بھی جنبش نہیں کرتا
بجھتے نہیں تارے ، میں سفارش نہیں کرتا
دیتا نہیں میں ترک تعلق کی وجہ بھی
رہتا ہوں میں خاموش ، گزارش نہیں کرتا
کہتے ہیں مجھے غیر میں سنتا نہیں جن کی
اجڑے کوئی اور اسکی میں خواہش نہیں کرتا
لو آج مٹاتے ہیں عداوت کا سبب ہم
میں یوں بھی رقیبوں کی ستائش نہیں کرتا
شیشے کی ہیں آنکھیں یہ پتھر کے ہیں چہرے
اس شہر میں غم کی کوئی بارش نہیں کرتا
الفت کا ہنر بھی نہیں آتا مجھے شاہد
کرنا جو نہیں آتا نمائش نہیں کرتا

0
54