نگاہوں میں ہیں انگارے، نہ ڈرتی ہے |
کہاں جاؤں، بچاؤ، مجھ سے لڑتی ہے |
سمجھتی ہے اسے غالبؔ پہ غلبہ ہے |
وہ آتشؔ ہے کہ آتش سی بھڑکتی ہے |
وہ بلبل ہے مگر شاہین لگتی ہے |
پلٹتی ہے پلٹ کر پھر جھپٹتی ہے |
نہ جانے کس سے سیکھی ہے زباں دانی |
“گزرتی ہے” کو کہتی ہے “گزڑتی ہے” |
کہے کچھ بھی اسے بس داد ملتی ہے |
کسے تنقید کا حق ہے، وہ لڑکی ہے |
وہ کہنے کو سفیرِ امن ہے لیکن |
کہیں اس کو جو جھگڑالو، جھگڑتی ہے |
معلومات