نگاہوں میں ہیں انگارے، نہ ڈرتی ہے
کہاں جاؤں، بچاؤ، مجھ سے لڑتی ہے
سمجھتی ہے اسے غالبؔ پہ غلبہ ہے
وہ آتشؔ ہے کہ آتش سی بھڑکتی ہے
وہ بلبل ہے مگر شاہین لگتی ہے
پلٹتی ہے پلٹ کر پھر جھپٹتی ہے
نہ جانے کس سے سیکھی ہے زباں دانی
“گزرتی ہے” کو کہتی ہے “گزڑتی ہے”
کہے کچھ بھی اسے بس داد ملتی ہے
کسے تنقید کا حق ہے، وہ لڑکی ہے
وہ کہنے کو سفیرِ امن ہے لیکن
کہیں اس کو جو جھگڑالو، جھگڑتی ہے

22