اک اشارے سے ہی ہم بات سمجھ لیتے ہیں
وہ کہیں دن کو بھی ہم رات سمجھ لیتے ہیں
جنگ اندر کی کبھی ان سے چھپا ہی نہ سکے
دیکھ کر چہرا مرے جذبات سمجھ لیتے ہیں
اپنی سادہ لوحی پہ سخت ہنسی آتی ہے
جنبشِ لب کو ملاقات سمجھ لیتے ہیں
میں تو درویش ہوں پر لوگ سمجھتے کیا ہیں
عاجزی کو مری اوقات سمجھ لیتے ہیں
میرے کاندھے پہ بہاتے ہیں ہمیشہ آنسو
گر میں رو دوں تو وہ برسات سمجھ لیتے ہیں

0
32