اک اشارے سے ہی ہم بات سمجھ لیتے ہیں |
وہ کہیں دن کو بھی ہم رات سمجھ لیتے ہیں |
جنگ اندر کی کبھی ان سے چھپا ہی نہ سکے |
دیکھ کر چہرا مرے جذبات سمجھ لیتے ہیں |
اپنی سادہ لوحی پہ سخت ہنسی آتی ہے |
جنبشِ لب کو ملاقات سمجھ لیتے ہیں |
میں تو درویش ہوں پر لوگ سمجھتے کیا ہیں |
عاجزی کو مری اوقات سمجھ لیتے ہیں |
میرے کاندھے پہ بہاتے ہیں ہمیشہ آنسو |
گر میں رو دوں تو وہ برسات سمجھ لیتے ہیں |
معلومات