آنکھوں سے مری پردۂ اسرار اٹھادے
کیا کیا ہیں نہاں عالمِ امکاں میں دکھادے
جیتے ہیں زمانے میں مگر کیسے جیالے
انداز و شیم طرزِ امم مجھ کو سکھادے
آ لے جا مجھے گوشۂ طیبہ میں تصور
دیدارِ شہِ دیں سے نگاہوں کو جِلادے
سرکارِ دو عالم یہ کہے دے کے ہدایات
جا قوم کے غیور اماموں کو بتادے
ہے محفلِ ہستی میں جو کم قیمت و ارزاں
بہتر ہے اسے صفحۂ ہستی سے مٹادے
پھر عظمتِ دیرینہ جوانوں کو سناکر
اسلام کی کھوئی ہوئی شوکت پہ رلادے
پھر لے آ اُنہیں خالدِ جانباز کی صف میں
اہمیتِ اسلام کا احساس دلادے
احساسِ زیاں فاتحِ عالم کو عطا کر
خود داری و غیرت کا سبق اس کو پڑھادے
پھر ٹوٹ پڑو قہرِ سماوات کی مانند
باطل کے فدائیں کو زمانے سے مٹادے
اے شاہؔی ! ذرا دیکھ کہ پھر گرم ہے میداں
اسلام کے سوئے ہوئے شیروں کو جگادے

1
50
پھر لے آ اُنہیں خالدِؔ جانباز کی صف میں
اہمـیتِ اســؔلام کا احســاس دلادے

. خودداری و غیرت

وہ جو تلک فاتحِ عـالــم ہوا کرتے تھے آج محرومِ عالم ہیں ، وہ جن کی غیرت و خودداری دوسروں کی حاکمیت کو کبھی تسلیم نہیں کرتی تھی وہ جو محکومیت کی ذلیل زندگی پر حاکمیت کی شاہانہ موت کو ترجیح دیتے تھے آج وہ اس قدر بے غیرت ،بے ضمیر اور بے حس ہو چکے ہیں کہ گردنیں طوقِ غلامی کے بوجھ تلے جھکیں ہیں مگر انہیں ذرہ احساس نہیں ستم تو یہ ہے کہ انہیں اس زیاں کاری اور خسارہ زدگی پر نا ہی رنج ہے نا ملال ہے جس کے نتیجے میں آج ان کا خون حلال ہے ،

. غیرتؔ