رسمِ دنیا ہی نبھاتے جائیے |
غم چھپا تے مسکراتے جائیے |
ہم جو ہیں، بس ایک خوابِ بے طلب |
آپ بھی خوابوں میں آتے جائیے |
دنیا سے کیا ہی شکایت ہو کہ اب |
اپنا سایہ بھی ہٹاتے جائیے |
کاش ہم بھی بے خبر ہو جائیں کچھ |
آپ ہم کو یاد آتے جائیے |
بے سبب، بے وقت، بے معنی سی بات |
یوں ہی دل میں مسکراتے جائیے |
خواب آنکھوں کو دکھاتے جائیے |
ضبطِ دل بھی آزماتے جائیے |
دل اسی سے تو سنبھلتا ہے مرا |
آپ دل میرا دکھاتے جائیے |
ہم منائیں گے بڑے دل سے فراق |
بس یہ رخ اپنا دکھاتے جائیے |
میری جاں اب روشنی کس کام کی |
ان چراغوں کو بجھاتے جائیے |
باریابِ بزمِ جاناں نے کہا |
جائیے! پر منھ چھپاتے جائیے |
دوریاں قسمت کا لکھا جانئے |
اور پھر خود کو مناتے جائیے |
زخم کھا کر بھی نہ کیجے لب کشا |
خامشی کا رزق کھاتے جائیے |
ہجر کی راہوں میں دل کو بےخبر |
آپ ہر پل آزماتے جائیے |
زندگی بھر کا سفر ہے اور بس |
اپنے قدموں کو بڑھاتے جائیے |
مجھ سے دل کا بوجھ ہلکا کیجئے |
بات کوئی دل لگاتے جائیے |
زندگی تو بے نشاں ہونے کو ہے |
آپ کس کس موڑ جاتے جائیے |
ہم نے ہر اک بات سے کھیلا بہت |
آپ بھی دل سے اٹھاتے جائیے |
یہ جو تنہائی کا صحرا ہے، اسے |
اپنی یادوں سے سجاتے جائیے |
معلومات