راہ گھر کا بھلائے بیٹھے ہیں
اپنا سب کچھ لٹائے بیٹھے ہیں
جانے والوں کے انتظار میں ہم
دیکھ آنکھیں بچھائے بیٹھے ہیں
پھول کھلتے ہیں جب بہاروں کے
ہم خزاں کو سجائے بیٹھے ہیں
منہ چھپائے اندھیری سی شب میں
ہر ستارہ بجھائے بیٹھے ہیں
اس جہاں پر ہمیں بھروسہ نہیں
تجھ کو خود میں چھپائے بیٹھے ہیں
ہم نہ جائیں گے مڑ کے غم کے نگر
ضد یہ من میں بٹھائے بیٹھے ہیں
خوشبو شاہد وفا کی آئے ہمیں
آس گل سے لگائے بیٹھے ہیں

0
62