| مرے آنسوؤں سے ابھری یہ صدائے آرزو ہے |
| نہ ہی ضبط غم ہے دل کو نہ ہی پاس میرے تو ہے |
| کوئی گمشدہ مسافر جسے کارواں سے بچھڑے |
| بڑی دیر ہوگئی ہے مجھے اس کی جستجو ہے |
| کسی شاخِ غم سے لپٹی جو چلی صبا چمن سے |
| ہے اسی کی سب کرامت یہ جو سانس مشکبو ہے |
| سرِ شام ہی سے روشن جو ہوا چراغ دل میں |
| کوئی درد ہے پرانا کہ خیال یار تو ہے |
| وہی شبنمی سی آہٹ جو نصیب جاں ہوئی تھی |
| مرے اشک کہہ رہے ہیں یہ اسی کی گفتگو ہے |
| جو بکھر گیا فضا میں جو مہک اٹھا صبا سے |
| جو سمٹ گیا حیا سے وہی عکس ہو بہو ہے |
| مرے پاس بیٹھے رہنا مجھے ساتھ لے کے اٹھنا |
| مرا ہاتھ تھامے رکھنا یہ سوالِ آبرو ہے |
معلومات