تازہ غزل ہوں نشرِ مکرّر نہیں ہوں میں
بگڑا ہوا کسی کا مقدّر نہیں ہوں میں
ہر دل عزیز ہوں سبھی ہیں جانتے مجھے
نازک سا آئنہ ہوں کہ پتھر نہیں ہوں میں
میرا گزر چمن سے تعلّق گلوں سے ہے
کہتا ہے کون بادِ معطّر نہیں ہوں میں
دامن میں ہیر رانجھے ہیں لیلٰی کا بھی ہے ذکر
کھو دے جو عقل پی کے مُخَمّر نہیں ہوں میں
ہوتا ہے ذکر حسن کا قصّے بھی عشق کے
محدود حسن و عشق کے اندر نہیں ہوں میں
کرتے ہیں جب احاطہ مضامین مختلف
محدود ہوں تو اتنی مغیّر نہیں ہوں میں
آزاد شاعری کے میں ہتھّے نہیں چڑھی
گو حوصلہ ہے اتنی مخیّر نہیں ہوں میں
اپنایا شاعروں نے مجھے حمد و نعت میں
ہے عاجزی زباں پہ مکبّر نہیں ہوں میں
طارق اگرچہ ذکرِ غزالاں ہے چاشنی
کوئی سمجھ نہ لے کہ مطہّر نہیں ہوں میں

0
13