گو فرشتہ نہیں ہوں میں عاجز بشر
میری پرواز روکیں نہ دیوار و در
روک لوں میں قدم کیا یہی سوچ کر
دُور منزل ہے اور راستہ پُر خطر
میں تری رہنمائی میں چلتا رہا
تیری جانب ہوا ہے جو اب تک سفر
چھوڑ دے تُو اگر جاؤں گا میں کہاں
ٹھوکریں کھاؤں گا میں کہیں در بدر
چاہتا ہوں کہ آؤں بڑے شوق سے
تُو بُلائے اگر مجھ کو پھر اپنے گھر
میری ساری تمنّائیں پوری ہوئیں
کون سی تھی دعا جو رہی بے ثمر
فضل سے تُو نے اپنے عطا کر دئیے
ہر قدم ہر گھڑی متقی راہبر
مومنوں کو خلافت عنایت ہوئی
اس کے سائے میں بیٹھے ہے یہ وہ شجر
ہے سراسر خلافت کی برکت ہی یہ
کارواں ہے رواں تیری جانب اگر
تیری پوری ہوں طارق مرادیں سبھی
سامنے بس خُدا کے جُھکا اپنا سر

0
58