ہم رکابوں میں ہم کلام ہو جاۓ |
آرزو میری بھی تمام ہو جاۓ |
اب زرا دم تو لینے دے، اے قضاء |
اُن کے آنے کا انصرام ہو جاۓ |
گھر کے رُتبے پے جا پہنچے مکاں |
میرے دل میں اگر قیام ہو جاۓ |
بھولنے کی صلاح کی ہے اُنہیں |
اے خدا یہ سبیل، خام ہو جاۓ |
یوں سرِ عام ذکر انکا کہیں |
حسنِ بے داغ کو کلام ہو جاۓ |
رُخ مُنوّر ہے اتنا وہ سرِ بزم |
دن کہ ڈھل جاۓ، چاہے شام ہو جاۓ |
بارِ خاطِر اُٹھانا آساں نہیں |
ورنہ تو عشق یُوں ہی عام ہو جاۓ |
اُس کو پڑھ لو نماز جیسے مہرؔ |
قبل اس کے، قضا تمام ہو جاۓ |
------٭٭٭------ |
معلومات